Saudi Arabia is in the Israeli front

محمد بن سلمان اسرائیلی محاذ میں، سعودیہ کے اسرائیل کے ساتھ ہونے کی چند دستاویزات

کچھ حقائق اور زمینی شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان غزہ کی پٹی کے خلاف جاری جنگ کے دوران 7 اکتوبر سے اسرائیلی محاذ میں شامل ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان کے ذلت آمیز موقف، نہ صرف موجودہ بحران میں، بلکہ بن سلمان کی سعودی عرب کے ولی عہد کے طور پر تقرری کے بعد سے، اس ملک کے اسرائیلی محاذ میں ہونے سے اس کے سیاسی چہرے پر عیاں ہیں۔

سعودیہ کے اسرائیلی محاذ میں ہونے کی چند دستاویزات

اسرائیلی محاذ میں صف آرائی

گزشتہ دہائیوں کے دوران، سعودی عرب نے خود کو عرب دنیا کے فیصلہ ساز مرکز اور علاقائی اور بین الاقوامی خارجہ پالیسیوں کے مرکز کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

سعودی عرب نے امن اور اسلامی اقدامات اور عرب اور اسلامی علاقائی اجلاسوں کے لیے خود کو ایک مصنوعی اڈے اور ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگرچہ سعودیہ نے بظاہر عوامی مقامات پر فلسطین کے بارے میں مظاہرے اور بات کرنے اور اس کی حمایت کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن عملی طور پر اس نے اپنے ملک میں فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت کو دبا دیا ہے اور اسرائیلی محاذ میں شامل ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

سعودی عوام کا موقف حکومت سے الگ

شاید فلسطین ہی سعودی عوام کے غصے اور عدم اطمینان کے اظہار آزادی رائے کی امید کی کرن تھی جس کی اس حکومت نے تبصرے دینے اور مالی امداد اور یکجہتی کی اجازت دی تھی، لیکن وہ بھی چند صورتوں میں۔

لیکن آج ہم ایک الگ دنیا میں ہیں، جب کہ 7 اکتوبر کے بعد خطے کی بیشتر اقوام اور اس وقت کی حکومتوں نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کی اور فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ سعودی حکومت اور محمد بن سلمان نے اس حقیقت، جو غزہ کی پٹی اور مقبوضہ علاقوں میں ہورہا ہے، کو نظر انداز کر دیا ہے جو اس کے اسرائیلی محاذ میں شامل ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔

سعودی ولی عہد کی اس بے توقیری کے پیش نظر انہوں نے اس تباہ کن جنگ کے پہلے ہفتے میں کمپیوٹر گیمز کے میلے میں شرکت کی اور پھر دوسرے تہواروں میں شرکت کا سلسلہ جاری رکھا جس پر انہیں ملکی اور علاقائی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اسرائیل کے خلاف بولنے کی حد تک بھی  ناکامی

غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کے تقریباً دو ماہ کے دوران سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے آپ کو اسرائیلی محاذ میں شامل کرنے کے لیے صرف چند بیانات جاری کرنے تک محدود رکھا، جو اس عظیم انسانی نقصان کی نسبت بہت ہی ناچیز اور قلیل نظر آتا ہے۔

فلسطینیوں کے قتل عام کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے والی سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے اجلاس میں محمد بن سلمان کے یہودی جیریڈ کشنر کے استقبال نے عملاً ظاہر کیا کہ محمد بن سلمان اسرائیلی محاذ میں صف آرا ہیں۔

اس ملاقات کے بعد محمد بن سلمان سے وابستہ نیم سرکاری سعودی میڈیا نے اسرائیلی محاذ میں شامل ہونے کے لئے اس لکے ساتھ اظہار یکجہتی اور فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی مذمت کے لیے مہم چلائی جو آج تک جاری ہے۔

جب کہ تمام نسلوں، رنگوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والی پوری دنیا، خاص طور پر امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں کے یہودیوں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جرائم کی مذمت کی ہے اور ہر دن اس کی مذمت کرتے رہتے ہیں، محمد بن سلمان کتوں کے میلے کے انعقاد میں مصروف نظر آرہے ہیں، اور یہ ایک حقیقت ہے جو نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہے۔

سعودیہ کی یہ پالیسی غلط ثابت ہوگی

حقیقت یہ ہے کہ محمد بن سلمان سے وابستہ افراد اور میڈیا ٹیمز فلسطینی کاز اور اس کے عرب حامیوں کے خلاف نفرت پھیلاتے رہتے ہیں، لیکن یہ کوئی سادہ اور گزر جانے والی گفتگو نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں اس آمرانہ حکومت میں پیوست ہیں، جسے بچانے کے لئے وہ اسرائیلی محاذ میں صف آرا ہونا عار نہیں سمجھتا۔

سعودی حکام کا دوسرے ممالک کے لیے جو ذلت بھری نگاہ ہے جس کا وہ ہر موقع پر اس کا حوالہ دیتے ہیں وہ ان کی گفتگو کا ایک اہم حصہ ہے۔ محمد بن سلمان نے کئی بار اپنی عربی اور علاقائی تقاریر کا آغاز یہ کہہ کر کیا ہے کہ سعودی عرب نے فلاں فلاں جماعتوں کی فلاں مقدار میں مالی مدد کی ہے اور فلاں فلاں ریاست اور حکومت کو اتنی رقم دی ہے۔ ایسے الفاظ کی مثالیں ان گنت ہیں، کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ طاقت کا واحد ذریعہ پیسہ اور دولت ہی ہے، وہ اس بات سے شاید ناواقف ہیں کہ بہت سے ایسے شعبے بھی ہیں جن میں پیسہ فیصلہ کن نہیں۔

اس بیان کی واضح مثال یمن کی جنگ میں دیکھی جا سکتی ہے جو اربوں ڈالر خرچ کرنے اور عرب مہم اور سخت ترین پابندیوں اور ناکہ بندیوں کے باوجود یمن کے غریب اور ننگے پاؤں فورسز کو سعودیہ شکست نہیں دے سکا۔

بن سلمان کی اصل شکست یمن نہیں

محمد بن سلمان کے لیے شکست کا دوسرا میدان بلاشبہ غزہ کی پٹی ہے جو اب تک اس کے خلاف چھیڑی جانے والی عالمی جنگ کے خلاف کھڑی ہے اور بن سلمان کی سب سے بڑی شکست یمن میں نہیں بلکہ غزہ کی پٹی میں ہوئی، کیونکہ اس نے اسرائیل محاذ میں اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور بہت سے تعاون کھولنے اور بہت سے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے سعودی عرب کے وعدے کے تمام حساب کتاب کا سبب بنا۔

محمد بن سلمان نے بائیڈن کی صدارت کے خاتمے سے قبل اسرائیلی محاذ میں اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو فوری طور پر مکمل کرنے اور بائیڈن حکومت سے مراعات حاصل کرنے، امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کی سلامتی کی فراہمی اور اس کے جوہری منصوبے پر عمل درآمد جیسی مراعات کی امید ظاہر کی۔

مبصرین کے مطابق سعودی عرب آج ایک بڑی تباہی میں جی رہا ہے، ایسی تباہی جو سیاسی سے زیادہ اخلاقی ہے۔ کیونکہ سیاست کی بنیاد ہتھکنڈوں پر ہوتی ہے، لیکن اخلاقیات خطے کے موجودہ واقعات کے تئیں عفو و درگزر، عزت نفس اور انسانیت پر مبنی ہیں، خاص طور پر ایسے معاملات میں جو خطے کی قوموں کے مذہبی اور قومی تشخص سے متصادم ہوتے ہیں، اور محمد بن سلمان اپنے موقف اور پالیسیوں سے یہ دکھا چکے ہیں کہ وہ ان سب سے خالی ہیں۔

شاهد أيضاً

Que savez-vous des crimes israéliens contre les journalistes à Gaza ?

Les crimes israéliens contre les journalistes à Gaza sont inhumains.

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *