The theft of Palestinian body parts by Israelis0

اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی لاشوں کے اعضاء کی چوری

حالیہ جارحیت میں غزہ کی پٹی کے اسپتالوں میں اسرائیلی فوج کے داخلے کے بعد اس حکومت کی جانب سے فلسطینی شہداء کے جسم کے اعضاء چرانے کا معاملہ ایک بار پھر خبروں کی زینت بن چکا ہے۔

 

جب کہ غزہ میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 7000 لاپتہ افراد ہیں جن میں سے اسرائیلیوں نے درجنوں فلسطینی لاشوں کے اعضاء، اغوا کر لیئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ان فلسطینی لاشوں کے اعضاء چرا لیے گئے ہیں۔

فلسطینی لاشوں کے اعضاء نکالنے والی خاص تربیت یافتہ ٹیم

جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں وہ ایک ٹیم کی ہے جو یوکرین میں یوکرینی باشندوں کے جسم کے اعضاء چرا رہی تھی، وہ ایک میڈیکل ٹیم کی شکل میں تھی اور پھر اسی کام کو جاری رکھنے کے لیے وہ مقبوضہ فلسطین پہنچی تھی۔

تاہم بحیرہ روم کی ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کے ڈاکٹروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے شہداء کے اعضاء کی چوری کے خوفناک معاملے کی نشاندہی کی۔ ان فلسطینی ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ لاشوں کے وصول کے بعد کچھ لاشوں کے فوری معائنے سے معلوم ہوا کہ آنکھ کا قرنیہ اور دیگر اہم اعضاء جیسے جگر، گردے اور دل چوری ہو گئے تھے۔

فلسطینی لاشوں کے اعضاء کی تجارت کی تاریخ

یورپی-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے اعلان کیا: اسرائیل کی فلسطینی لاشوں کے اعضاء کو اغوا کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، کیونکہ وہ کم از کم 145 فلسطینیوں کی لاشوں کو خصوصی ریفریجریٹرز میں رکھے ہوئے ہیں اور 255 فلسطینی شہداء کی لاشیں ایسی قبرستانوں میں دفنا چکے ہیں جنہیں “نمبروں کا قبرستان” کہا جاتا ہے، جسے انگلش میں Cemeteries of Numbers کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نمبروں کا قبرستان کیا ہے؟

یاد رہے کہ اسرائیل میں ایک غیر واضح اصول پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں مرنے والے فلسطینیوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کو واپس نہیں کی جاتیں۔ انہیں الگ الگ ایک خفیہ قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے، جہاں ہر قبر کو نمبر دیا جاتا ہے اور صرف اسرائیل کی داخلی سیکیورٹی سروس یعنی شباک، ان نمبروں کی شناخت کرنے کے قابل ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی اسے “نمبروں کے قبرستان” کے نام سے جانتے ہیں۔ جو در حقیقت فلسطینی لاشوں کے اعضاء فروخت کرنے کے بعد ان کی لاش کے باقی حصوں کو وہاں دفنا دیا جاتا ہے۔

 

ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے کچھ عرصے بعد مغربی کنارے کے شہداء کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دیں لیکن ان کی لاشیں منفی چالیس درجہ حرارت میں منجمد کر دی گئی تھیں اور اسرائیل نے لاشوں کی حوالگی کو مشروط کر دیا تھا کہ لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جائے گا۔ جو ممکن ہے اس شرط سے اسرائیل کا مقصد ان شہداء کے جسم کے اعضاء کی چوری کو چھپانا ہو۔ اور وہ فلسطینی لاشوں کے اعضاء نکالنے کے بعد انہیں لواحقین کے حوالے کرچکے ہوں۔

اسرائیل، جسم کے اعضاء کی تجارت کا بے تاج بادشاہ

اس رپورٹ کے تسلسل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل جو انسانی جسموں کے اعضاء کی غیر قانونی تجارت کے سب سے بڑے عالمی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، “کوشش برائے سیکیورٹی قوت مزاحمت” کے عنوان سے لاشوں کو اغوا کرنے کی پالیسی کو جواز بناتا ہے اور فلسطینی لاشوں کے اعضاء کی گھناؤنی تجارت کرکے اس میدان میں بین الاقوامی معاہدوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔

غزہ جنگ میں 7000 لاپتہ فلسطینی لاشوں کی نامعلوم تقدیر

رامی عبدہ، یورپی-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے بھی کہا: 7000 فلسطینی اب بھی غزہ میں ملبے کے نیچے ہیں۔ رامی عبدہ نے اعلان کیا کہ ملبے کے نیچے سے نکالنے میں مدد کے لیے کوئی عرب ریسکیو یا شہری دفاع کی گاڑیوں کو غزہ داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اس سلسلے میں الشفاء اسپتال کے ڈاکٹروں اور زخمیوں نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس اسپتال کے محاصرے کے دوران طبی عملے پر حملہ کرکے مریضوں کو گرفتار کیا اور فلسطینی لاشوں کے اعضاء چوری کیئے ہیں۔

 

الشفاء ہسپتال کے ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر معتز حرارہ نے کہا: محاصرے کے دوران قابض فوج کے جوانوں نے طبی عملے اور مریضوں پر حملہ کیا اور شہداء کی لاشوں کو نامعلوم مقام پر لے گئے۔ اسرائیلی فوج نے طبی آلات کو تباہ کر دیا اور ہسپتال کی بجلی کاٹ دی۔ اس کے علاوہ، پیچھے ہٹنے کے بعد، اس نے ہسپتال میں بجلی کے جنریٹرز کو دھماکے سے اڑا دیا اور آکسیجن کیپسولز کے علاوہ طبی آلات کو تباہ کر دیا۔

اس اسپتال کے ایک اور ڈاکٹر، ڈاکٹر مصطفی سکیک نے بھی کہا: اسرائیلی فوج نے الشفاء اسپتال کو گھیرے میں لے لیا اور اس میں نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں رابطے اور کھانے سے محروم کردیا گیا۔ قابض فوجیوں نے ہسپتال کی عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی اور مجھ سے زخمیوں کو اس کمپلیکس میں کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کو کہا۔

 

الشفاء اسپتال میں زخمیوں میں سے ایک “ابراہیم زکریا” نے بھی اس بارے میں اعلان کیا: مجھے فوری طبی امداد کی ضرورت تھی، اسرائیلی فوج نے ہمیں کئی دنوں تک اسپتال میں گھیرے میں رکھا۔ میری بیوی اور بچے بھی میرے ساتھ الشفاء ہسپتال میں پھنس گئے اور پھر میرا ان کے ساتھ رابطہ کٹ گیا، مجھے اپنے گھر والوں کا انجام جاننے کا حق ہے۔

شاهد أيضاً

The Art of Social Media Marketing: 10 Essential Strategies

The Art of Social Media Marketing: 10 Essential Strategies

By harnessing the art of social media marketing, businesses can create a powerful online presence …

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *