جس طرح صدام کی بعثی فوج کو 8 سالہ جنگ میں ایران نے شکست دی اور اس کے بعد صدام نے اپنے پائلٹوں اور فوجیوں کو پھانسی دی اور مختلف طریقوں سے ان کی جان لی؛ یمن کی طاقتور قوم اور بہادر فوج سے شکست کھانے کے بعد اب سعودی حکومت کی باری ہے کہ ان سپاہیوں کو جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لینے کے بعد یمن کے مظلوم عوام کے قتل عام کے احکامات سے انکار کر دیا، ان فوجیوں کو پھانسی دی جائے۔
فوجیوں کو پھانسی دلانے کا ثبوت
اسی تناظر میں Fair Observer امریکی ویب سائٹ نے سعودی فضائیہ کے دو پائلٹوں کو دو ہفتے سے زائد عرصہ قبل غداری کے جرم میں پھانسی دیے جانے کی اصل وجہ بتائی۔
سعودی اپوزیشن کے بعض ذرائع نے اعلان کیا کہ انہیں یمن میں شہری اہداف پر بمباری کرنے سے انکار کرنے پر سزائے موت دی گئی۔
امریکی ویب سائٹ فیئر آبزرور نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل پائلٹ ماجد بن موسی عوض البلوی اور چیف سارجنٹ یوسف بن رضا حسن العزونی ان درجنوں افسروں اور پائلٹوں میں سے دو ہیں جنہیں حال ہی میں مخالفانہ سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سعودی حکومت کو فوجی بغاوت کا سامنا ہے
سعودی حکام اس ملک کی فوج کے اندر موجود غصے کی وجہ سے، جو آٹھ سال سے زیادہ عرصے سے یمن کی جنگ میں حصہ لے رہی ہے، فوجی بغاوتوں کے وقوع پذیر ہونے سے پریشان ہیں اور اسی لئے فوجیوں کو پھانسی دینے کا ارادہ کر چکی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سعودی عرب کی صورت حال کتنی گھمبیر اور اس کے حکمرانوں کے لیے کتنی ناقابل برداشت ہے۔
اس ویب سائٹ میں سعودی فوجیوں کی پھانسی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ البلوی اور حسن العزونی نے یمن میں شہری اہداف پر فضائی حملے کرنے کے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے انکار کیا تھا اور شاید سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی تنقید میں ان کے بیانات رپورٹ ہوئے تھے اور چونکہ دنیا بھر میں کوئی قانونی عدالت کسی شخص کو یمنی شہریوں پر بمباری کرنے سے انکار پر سزا نہیں دے سکتی اس لئے ان پر قوم اور حکومت کے ساتھ غداری کے غیر واضح الزامات لگائے گئے تا کہ آخر کار ان فوجیوں کو پھانسی دی جا سکے۔
پائلٹوں کو پھانسی دینے کا حکومت کا مقصد
فوجیوں کو پھانسی کے حوالے سے اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اس ظالمانہ طرز عمل کا مقصد ان دوسرے فوجیوں کو ایک سنگین پیغام دینا ہے جو فوج چھوڑنا چاہتے ہیں، اور اس پھانسی کا مقصد البلوی اور حسن العزونی کو محمد بن سلمان کے خلاف مسلح بغاوت مشن میں ہیرو بننے کی روک تھام بھی ہے، خاص طور پر جب سے سعودی عرب کو پہلے بھی علیحدگی اور فوج میں تقسیم کا سامنا ہوا ہے۔
گزشتہ مئی میں اس حقیقت کے باوجود کہ سعودی نیشنل گارڈ کے ایک سابق رکن مہند الصبیانی پر سفر کی پابندی عائد کی گئی تھی، وہ اس گارڈ سے الگ ہو کر امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے بہت سی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کے کئی واقعات دیکھے ہیں۔ اور اس کے علاوہ وہ قیدیوں اور تارکین وطن کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور منشیات اور ہتھیار کی اسمگلنگ کے بھی چشم دید گواہ ہیں۔
متذکرہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمن کی جنگ میں سعودی فوج کے عدم اطمینان اور بنیادی مسائل کی پوری طرح عکاسی نہیں ہو پائی، جہاں سعودی فوجیوں، خاص طور پر نچلے رینک والے فوجیوں کے ساتھ عام طور پر اچھا سلوک نہیں کیا جاتا اور ان کی تنخواہیں خلیج کے کسی بھی دوسرے ملک میں کی تنخواہوں سے بہت کم ہے جو ماہانہ 1,790 ڈالر سے شروع ہوتی ہے، اور انہیں کوئی خاص مراعات بھی نہیں ملتی ہیں جبکہ کویتی فوجی کی ماہانہ تنخواہ 2,360 ڈالر اور قطری فوجی کی 2,500 ڈالر ہے۔
اس سے پہلے کہ اٹارنی جنرل حکومتی پالیسیوں پر سر عام اعتراض کرنے والے کو سزا دینے کا حکم جاری کرے، سعودی فوجیوں نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں سعودی بادشاہ سے مالی مدد کی درخواست کی گئی، جس میں کہا گیا کہ وہ اس حال میں بیرون ملک لڑ رہے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو ملک کے اندر قرض ادا کرنے کے لیے جدوجہد میں ناکامی کی وجہ سے جائیداد سے بے دخلی یا ان کی جائیداد کی ضبطی کا سامنا ہے۔