مصدقہ اطلاعات نے اسلامی مزاحمتی فورسز کے باخبر ذرائع کے حوالے سے اس بات پر زور دیا ہے کہ نہ صرف خطے میں امریکی فوج کے غیر قانونی اڈوں پر حملے بڑھیں گے بلکہ خطے میں امریکی بحری جہازوں کی شمار بھی حملے کے متعین اہداف میں شامل ہیں۔
بعض ذرائع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کے دورہ عراق اور اس ملک کے وزیراعظم کی طرف سے ایرانی حکام کو پیغام بھیجنے کی ایک بڑی وجہ اس مسئلے سے آگاہی تھی۔
ان ذرائع کے مطابق امریکی اس معاملے سے بہت خوفزدہ ہیں اور یمن کی جانب سے بحیرہ احمر میں آئزن ہاور طیارہ بردار بحری بیڑے کو باب المندب سے گزرتے ہوئے نشانہ بنانے کی دھمکی نے ثابت کر دیا کہ امریکی بحری جہازوں کو ڈبونے کا فیصلہ مزاحمتی فورسز کی جانب سے ایک سنجیدہ اور یقینی ارادہ ہے۔
امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنائے جانے کی پہلی سنجیدہ خبر
لبنانی فورس حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے ہفتے کے روز اپنے خطاب میں لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے ساحلوں پر امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے جو دھمکی دی تھی وہ کوئی خالی دھمکی نہیں تھی بلکہ پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ اور تمام آلات و ساز وسامان کی فراہمی کے ساتھ دھمکی تھی۔
امریکی ذرائع نے لبنان میں اسلامی مزاحمتی میزائل سسٹمز کی نقل و حرکت اور تعیناتی کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ مزاحمت نے لبنان کے مختلف علاقوں میں 300 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی رینج والے میزائل نصب کیے ہیں۔ روسی ساختہ یاخونت میزائل، قادر، قدیر اور کئی دوسرے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اینٹی شپ کروز میزائل ان آلات میں شامل ہیں جن کا امریکی فریق نے مشاہدہ کیا ہے۔
نیز یمنی فوج کی بحری طاقت، خطے میں امریکی بحری جہازوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یمنی فوج کے پاس جدید اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے زمین شکن میزائل اور نظام موجود ہیں جو 2000 کلومیٹر دور تک کسی بھی ہدف کو تباہ کر سکتے ہیں۔ جب کہ حزب اللہ بحیرہ روم کے پانیوں کا احاطہ کرتی ہے، اور باخبر ذرائع کے مطابق انصار اللہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن کا احاطہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔
نیز عراقی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کی نقاب کشائی انہیں آبنائے ہرمز کے مشرق میں خلیج فارس میں امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے قابل بناتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی بحری جہازوں کو خطرہ
دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار امریکی بحری طاقت کی اس سطح کی کوریج اور خطرے کی صلاحیت بڑی اور غیر مسابقتی امریکی بحری جہازوں اور پوری بحریہ کو کسی بھی مداخلت اور جارحانہ کارروائیوں سے محروم کر دیتی ہے۔
عراق اور شام میں امریکی زمینی اڈوں پر حملہ مغربی ایشیا سے امریکیوں کو نکالنے کے لیے مزاحمت کی عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ حملے مزید شدید ہوں گے اور امریکی یہ جانتے ہوئے کہ خطے کے ممالک، دیگر مزاحمتی گروہوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے، ان کی واحد امید یہ طیارہ بردار بحری جہاز ہیں جنہیں انہوں نے خلیج فارس اور مشرقی بحیرہ روم میں تعینات کیا ہے۔ لیکن امریکی فریق کی ایک اور بڑی تشویش یہ ہے کہ اگر وہ علاقائی سطح پر ایران کے اتحادیوں کے خلاف بھاری مداخلت کرنا چاہتا ہے تو ایران خود میدان میں اترے گا اور پھر امریکہ کے سر پر چھت گر جائے گی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اگر ایران کی ڈرون طاقت نے امریکی فضائیہ کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کیا ہے تو دوسری طرف ایران کی میزائل اور اینٹی شپ پاور نے تمام امریکی ہوائی اڈوں اور بحری بیڑوں کو بھی تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اگرچہ امریکیوں نے اس خطے میں بے شمار دفاعی بم بھیجے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے اڈوں پر کسی بھی میزائل حملے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف دفاعی بحری جہازوں کو طیارہ بردار بحری جہازوں کے ساتھ جوڑ دیا تاکہ ان تیرتے اڈوں پر حملے کی صورت میں اپنا دفاع کیا جا سکے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر جنگ وسیع اور جامع انداز میں شروع ہوئی تو اس دفاعی نظام کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا اور وہ خود نشانہ بنیں گے۔
یوکرین جنگ میں امریکہ کی ناکامی
کیف میں امریکہ کے جدید ترین دفاعی نظام پیٹریاٹ پر حملہ کرنے کا تجربہ ایک چھوٹی سی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ ہائپرسونک میزائل کے ساتھ ساتھ اینٹی راڈار میزائل اور ڈرون بھی جو ایران نے اس مقصد کے لیے گزشتہ برسوں میں تیار کیے ہیں، امریکہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔
اسرائیل کی شکست امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے برابر
آخر میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی فتح اور اسرائیل کی شکست کے لیے مزاحمتی محور کا فیصلہ سنگین اور غیر متزلزل ہے۔
بعض کا خیال ہو سکتا ہے کہ مزاحمت فلسطینیوں کی مدد نہیں کرتی لیکن امریکی حکام کے انتباہات اور پیغامات اور خطے میں ان کے فوجی رویے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شدید دباؤ میں ہیں اور اسرائیل کی حمایت اور اپنے مفادات کے تحفظ کے درمیان الجھے ہوئے ہیں۔
امریکی بحری جہازوں پر حملے کا فیصلہ سنجیدہ اور یقینی ہے، اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ کیا فلسطین میں اسرائیلیوں کے جرائم کی حمایت جاری رکھنا امریکہ کے بحری بیڑے کی تباہی اور ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے مترادف ہے؟