حوثی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کے ذریعے مسلم اور عرب دنیا کواپنے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دے رہے ہیں اور ایسے میں کوئی بھی بڑی عرب طاقت کھل کر حوثیوں کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔
امریکہ نے جب دسمبر کے آخر میں بحیرہ احمر میں سفر کرنے والے تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک کثیر الملکی بحری فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تو ابتدائی طور پر کہا گیا کہ اس اتحاد میں 10 ممالک حصہ لیں گے۔
حوثی اسرائیل کے خلاف ہی کیوں لڑ رہے ہیں؟
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ”حوثی اسرائیل کے خلاف جنگ میں ایک اسٹریٹجک وجہ رکھتے ہیں۔ حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل ان کا اصل دشمن ہے حالانکہ حقیقت میں اسرائیل کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست علاقائی تنازعہ نہیں ہے۔ لیکن حوثی پوری مسلم اور عرب دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے زیر قیادت 38 ارکان پر مشتمل کمبائنڈ میری ٹائم فورسز یا (سی ایم ایف) کے تمام ارکان کو حوثیوں کے خلاف بنائے گئے اتحاد میں شمولیت کے لیے مدعو کیا۔ تاہم اب تک صرف بحرین، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، اسپین، سیشلز اور برطانیہ سمیت نو ممالک نے اس نئے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔
المیادین کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یمنی مسلح افواج کی جانب سے بحیرہ احمر میں حملے کا نشانہ بننے والا برطانوی آئل ٹینکر یونان نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں کی طرف جارہا تھا۔
ان ذرائع نے مزید بتایا کہ نشانہ بننے والا آئل ٹینکر اسرائیل کے لیے ایندھن لے جا رہا تھا۔ اسی لئے یہ ٹینکر حوثی اسرائیل کے خلاف جنگ کی زد میں آیا ہے۔
برطانوی آئل ٹینکر پر حملہ، حوثی اسرائیل کے خلاف جنگ کا اہم رکن
مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا کہ بحیرۂ احمر میں نشانہ بنائے گئے برطانوی آئل ٹینکر کے ساتھ دو برطانوی اور امریکی بحری جہاز بھی تھے لیکن جب یمنی مسلح افواج کے ساتھ جھڑپ شروع ہوئی تو وہ فرار ہو گئے اور برطانوی مال بردار جہاز کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔
سیاسی مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی اور برطانوی حفاظتی بحری جہازوں کے فرار ہونے اور بحیرہ احمر میں برطانوی بحری جہاز کو تنہا چھوڑنے سے خطے میں غیر ملکی تحفظ کے خواہاں اتحادیوں کے لیے سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ اور برطانیہ کی بزدلانہ طفل تسلیوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب برطانوی ایمبری میری ٹائم سیکیورٹی کمپنی نے تصدیق کی کہ برطانوی آئل ٹینکر مارلن لنڈا کو جمعے کی شب عدن کے جنوب مشرق میں میزائل کا نشانہ بنایا گیا اور وہ ابھی تک جل رہا ہے۔
برطانوی سمندری سیکورٹی ادارے کے مطابق واقعہ خلیج عدن کے جنوب مشرقی علاقے میں پیش آیا۔ امریکی محکمہ دفاع نے بھی خلیج عدن میں تیل بردار کشتی پر میزائل حملے کی تصدیق کی ہے۔
پینٹاگون کے اعلی عہدیدار کے مطابق حوثی اسرائیل کے خلاف میزائل حملے کے بعد کشتی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کشتی پر بلیسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا ہے۔
خلیج عدن میں برطانوی مارلن لوانڈا آئل ٹینکر کو یمنی فوج کے میزائل حملے سے نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے زیر کنٹرول علاقوں سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہوا ہے۔
اس حملے کے بارے میں چند اہم نکات
1: ریاستہائے متحدہ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے “آپریشن پراسپرٹی گارڈین” بحری اتحاد کے بارے میں بہت زیادہ اشتہار بازی کی تھی اور یہ نہیں سوچا تھا کہ حوثی اسرائیل کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر بحری جہازوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
2: اس حملے کی آپریشنل اہمیت، بیلسٹک میزائل کے استعمال اور لمبے فاصلے پر ہدف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کے علاوہ، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثیوں کے پراجیکٹائل کو روکنے میں ناکامی سے بھی جانچا جانا چاہیے۔
یعنی ان دونوں ممالک کا رد عمل کے لیے تیار ہونے کے باوجود، عملی طور پر بھاری اور اچھی طرح سے لیس مغربی جہاز، حوثیوں کے ساز و سامان سے نمٹنے کے لیے مناسب دفاع نہیں کر سکے۔
3: گزشتہ مہینوں کی پیش رفت نے ظاہر کیا کہ حوثی اسرائیل کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابی حاصل کر کے امریکہ اور اس کے اتحادی جو حوثیوں کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتے اور آبنائے باب المندب کو کھلا نہیں رکھ سکتے وہ آبنائے ہرمز کے ممکنہ تنازعہ میں IRGC اور ایرانی فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟
4: اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے، یہ کہا جانا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ میں حالیہ تنازعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسٹرٹیجک نظریات میں غیر متناسب جنگی طریقوں کی حامل تنظیموں سے نمٹنے کے لیے فضائی بمباری کی قدر اور اس کے مثبت اثرات کے بارے میں بنیادی طور پر نظر ثانی کی جانی چاہیے کیونکہ اس کی تاثیر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور دیگر ماہرانہ متبادل طریقے استعمال کرنے کا سوچنا چاہئے۔
کیونکہ نہ تو حزب اللہ کے خلاف 33 روزہ جنگ میں، نہ غزہ کی لڑائیوں میں، اور نہ ہی حوثی اسرائیل کے خلاف جنگ میں یمن اور اس کے گردونواح کے حالیہ تنازعات میں، فضائی بمباری اور آسمان پر تسلط، صرف مغربی اسرائیلی فریقوں کی برتری کا سبب بن سکتا ہے۔
5: جغرافیائی اور سیاسی نقطہ نظر سے یہ بھی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ صنعاء میں یمن کی قومی سالویشن حکومت کو برقرار رکھنے سے باب المندب کی اسٹریٹجک آبی گزرگاہ اور بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب یمنیوں کے کنٹرول میں آجائے گی۔ اور اس سے دنیا میں طاقت کی جیومیٹری میں ایک سنگین تبدیلی آئے گی۔
نیز آبنائے ہرمز پر ایران کے تسلط کو بحیرہ احمر میں ہونے والی پیش رفت سے الگ نہیں سمجھا جانا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر یہ دونوں مل کر کام کریں گے۔
6: ان پیش رفتوں کے بعد دنیا کے دیگر حصوں میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی خود اعتمادی بڑھے گی اور وہ اپنی امریکہ اور برطانیہ مخالف سرگرمیاں زیادہ اعتماد کے ساتھ سر انجام دیں گی کیونکہ ان کے ذہنوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا وقار اور بڑائی ختم ہو چکی ہے۔