غزہ جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے پانچ منظرنامے

فرانسیسی اخبار “ایکسپریس” نے ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے، حماس تحریک کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے لیے غزہ جنگ کے بعد کے ممکنہ منظرناموں کو تجزیہ کیا ہے۔

 

اس اخبار نے لکھا کہ جون 2009 میں تل ابیب کی Bar-Ilan University میں بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے ساتھ امن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا: “دو قومیں جو آزادانہ طور پر دوستی اور باہمی احترام کے ساتھ رہیں گی۔ ہر قوم کا اپنا جھنڈا، قومی ترانہ اور حکومت ہوگی۔ “ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی حفاظت یا بقا کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔”

 

ایکسپریس نے ان بیانات کے بارے میں لکھا: “جس شخص نے یہ الفاظ کہے (اگرچہ یہ شرائط اس وقت فلسطینیوں نے قبول نہیں کی تھیں) لیکن وہ آج اپنی بات نہیں رکھ رہا، جبکہ اسے اپنی بات ہر حال میں برقرار رکھنی چاہیے تھی۔”

2015 میں، نیتن یاہو نے کنیسٹ کی انتخابی مہم کے دوران اس بات پر زور دیا کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں، کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی، اور 2022 کے آخر میں ان کی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کی شمولیت نے انہیں مزید انتہا پسند بنا دیا۔

غزہ جنگ کے بعد کے پانچ منظرنامے

اس تجزیہ نے نوٹ کیا کہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے صورتحال پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غزہ کی پٹی کے جنوب میں چلے گئے ہیں جہاں انسانی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور دیگر قیدیوں کی رہائی کی امیدیں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔

ناقابلِ حصول خواب کی واحد تعبیر

گرنے والے بموں کے سائے اور درد و غم کے پھیلاؤ میں، اب کوئی بھی اس خوفناک جنگ کے نتائج کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ غزہ جنگ کے بعد کے تناظر میں، ایک تباہ کن جنگ سے لے کر پرامید ہونے تک کا مطلب، یعنی ایک طویل المدتی حل تک پہنچنا، ایک ناقابل حصول خواب لگ رہا ہے، لیکن دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع دو ریاستوں کا بقائے باہمی، ایک اسرائیلی اور دوسری فلسطینی حکومت، ہی امن کی ضمانت کا واحد ممکنہ راستہ سمجھا جاتا ہے۔

ہر منظر نامے کا سب سے اہم عنصر

ایکسپریس لکھتا ہے: “یقینا، غزہ جنگ کے بعد کسی بھی منظرنامے پر بات کرنے سے پہلے، خود تنازعہ کو روکنا ضروری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم اس سے بہت دور ہیں: 9 دسمبر کو، غزہ میں ” انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی” کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے ایک دن بعد، بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کے لیے اپنی جنگ جاری رکھے گا۔ لیکن یہ بتائے بغیر کہ یہ مقصد کب حاصل ہوگا۔ اگرچہ ہوسکتا ہے اسرائیل حماس کے جنگجوؤں کو شکست دینے اور جنگ ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے، لیکن وہ ان کے نظریے کو کبھی ختم نہیں کر سکے گا۔

حماس کی جیت اور فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری

سابق فلسطینی مذاکرات کار اور واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ محقق غیث العمری کے مطابق، ’’اگر غزہ جنگ کے بعد حماس کو شکست ہوئی تو اس کے بعد کے عرصے میں غزہ کے فلسطینیوں میں انتہا پسندانہ خیالات بہت زیادہ پھیل جائیں گے۔ اس مدت کو حماس کو زیادہ پرکشش سیاسی متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور امن کا عمل شروع کیا جانا چاہیے، لیکن اگر غزہ کی تعمیر نو نہ کی گئی تو فلسطینی اتھارٹی کمزور، بدنام اور بدعنوان ہوجائے گی جبکہ تحریک حماس کو پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائے گی۔” اور اس کا امکان دیگر قیاس آرائیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

نیتن یاہو کیسے اس دلدل سے نکل سکتے ہیں؟

اسرائیل کے اندر، بہت سے لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ جنگ ختم ہو جائے تو غزہ جنگ کے بعد اس جنگ کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو جنگ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ لیکن نیتن یاہو نے کئی معاملات میں ایسے حالات سے نکلنے کی اپنی صلاحیت ثابت کی ہے، مثال کے طور پر وہ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی معاہدہ کرکے اس صورتحال سے خود کو بچا سکتا ہے۔

چند منظرنامے اور اسرائیل کے لئے مسائل

دوسری طرف غزہ جنگ کے بعد خطے میں جو بڑا خطرہ پایا جاتا ہے، وہ ہے تنازعات کا پھیلنا۔ جیسا کہ غزہ میں جنگ جاری ہے، ساتھ ہی لبنان کی حزب اللہ اپنی شمالی سرحد پر اسرائیل کو دھمکیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایکسپریس کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے بعد حماس کی تباہی کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کی حزب اللہ اور ایران، زیادہ سے زیادہ براہ راست جنگ میں داخل ہوں گے، جو یقیناً اسرائیل کے خلاف زیادہ تر حزب اللہ کے اختیار اور بالادستی کے مترادف ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ مغربی کنارے میں جہاں 7 اکتوبر سے اب تک 260 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، غزہ جنگ کے بعد حالات مزید خراب ہوجائیں۔

غزہ جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے پانچ منظرنامے

یہ بھی ممکن ہے کہ غزہ جنگ کے بعد حماس اسرائیلی فوج کے خلاف ایک اور محاذ کھولنے کی کوشش کرے۔ ایسے میں غزہ جنگ کے بعد کچھ عرب ممالک جیسے کہ اردن میں کشیدگی مزید شدت اختیار کر جائے گی جہاں مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔ سعودی عرب، مصر اور اردن کے عوام ناراض ہیں اور ان کے رہنما اس لئے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ غزہ جنگ کے بعد خطے کے استحکام کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

چاہے کچھ بھی ہو، اسرائیل اب وہ طاقتور اسرائیل نہیں

ایکسپریس کے اس تجزیہ کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور غزہ اور اسرائیل کی جو بھی صورت حال ہو، ایک بات سب پر بالکل عیاں ہے کہ خواہ فرضی طور پر حماس کی شکست کا ناممکن منظر نامہ ممکن ثابت ہو بھی جائے اور خطے کے ممالک امن کے قیام اور غزہ کی تعمیر نو میں فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنے میں حصہ بھی لیں، لیکن غزہ جنگ کے بعد نہ تو غزہ سابقہ غزہ رہے گا، نہ اسرائیل، سابقہ اسرائیل، اور نہ ہی خطہ، سابقہ خطہ رہے گا۔

شاهد أيضاً

Qui est derrière la répression des manifestations étudiantes américaines ?

Le rôle des partis sionistes dans la répression des manifestations étudiantes américaines devient de plus en plus évident.

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *