سعودی حزب اختلاف کے اخبار “وائس آف دی پیپلز” نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ “محمد بن سلمان” اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بجائے اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار اپنے مفادات کے تقاضوں کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
سعودیہ کو بائیکاٹ کے طریقے آتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے خلاف
اس مخالف اشاعت میں مزید کہا گیا ہے: اگرچہ سعودی عرب نے ترکی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کی بھرپور حمایت کی اور قطر کے محاصرے کی قیادت کی، لیکن اس نے شرمناک موقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے انکار کردیا۔
اس اشاعت کے مطابق، اکتوبر 2020 میں، جب سعودی عرب اور ترکی کی خارجہ پالیسی قطر کے ساتھ تصادم میں مد مقابل ہوگئی، سعودی عرب کے حکام نے “ترک ساختہ اشیا کی پابندی” کی مہم کی حمایت کی اور جون 2017 سے، چار سال کی پابندی لگا دی گئی۔
ترکی کے علاوہ قطر بھی سعودی بائیکاٹ کی زد میں
اس نے قطر کے خلاف سخت اقدامات کا اطلاق کیا اور اس سلسلے میں اس نے قطر کا بائیکاٹ کرنے کے لیے کئی مہمیں شروع کیں، جیسے کہ “قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا” اور “قطر کو محدود کرنا” اور قطر جانے والے سعودی عرب کے تمام زمینی، سمندری اور فضائی راستوں کو بند کرنا۔
اس کے علاوہ سعودی میڈیا کو اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانی پڑی اور ایک ہمہ جہت اور وسیع میڈیا پروپیگنڈہ جنگ شروع کر کے قطریوں کو درپیش معاشی اور سماجی بحران کی شدت اور تلخی کو دوگنا کرنا پڑا۔
نیز ترکی کے حوالے سے سعودی عرب نے خود کو ترک اشیا پر پابندی لگانے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ترکی میں سعودی سرمایہ کاروں اور تاجروں کے خلاف انتہائی سخت پالیسیاں اپنائیں جس سے انہیں بہت زیادہ اور بھاری نقصان پہنچا اور بالعموم سرمایہ کاری کے دو شعبوں اور دو ملکوں کے بینک داخل ہوئے۔
اس موقع پر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دونوں ممالک کے درمیان عمومی طور پر تمام برآمدات اور درآمدات اور تجارتی تبادلے بند کر دیے۔
سعودی ولی عہد کے حکم پر اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ممتاز سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل اور انقرہ حکومت کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کے بعد ترکی کے خلاف سعودی پابندیوں میں مزید شدت آگئی۔
لبنان پر پابندیاں
نیز بیروت بندرگاہ کے دھماکے کے بعد لبنان کے بین الاقوامی بحران میں داخل ہونے اور لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد الحریری کی جانب سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو رعایت نہ دینے کے بعد برآمدات اور درآمدات اور ہر قسم کے تجارتی لین دین پر سعودیہ نے لبنان کے ساتھ تعلقات پر پابندی لگا دی، لبنان کی مالی امداد منقطع کر دی، تاکہ لبنان میں مالی اور اقتصادی بحران اقتصادی تباہی کے مرحلے میں داخل ہو جائے۔
سعودی عرب میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی نوبت نہ آئی
غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے آغاز اور خواتین اور بچوں کے ہولناک اور غیر انسانی قتل کے مرحلے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی جو کچھ ہوا، اس پر غور کرتے ہوئے، جب کہ اس کی توقع کی جا رہی تھی، کہ سعودی عرب دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ میں حصل ڈالے لیکن اسرائیلی تیار کردہ مصنوعات اور اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنے بجائے سعودیہ نے دنیا سے بالکل مختلف موقف اپنایا اور نہ صرف اسرائیل میں بنی مصنوعات اور اس حکومت کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ نہ کیا بلکہ سعودی عرب میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بجائے ان کے مصنوعات کو فروغ دیا، اور ان کے حمایتیوں میں سرفہرست بن گیا۔
بائیکاٹ تو کیا، تشہیر مزید بڑھ گئی
“میکڈونلڈ” کمپنی کا ذکر کیا جائے جس نے غزہ جنگ کے دوران سعودی شہریوں کو اس کثیر القومی ریسٹورنٹ سے خریداری کی ترغیب دینے کے لیے سعودی عرب میں اس ملک کے وسیع اشتہارات دئیے گئے تھے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا کے کارکنوں اور صارفین نے سوشل نیٹ ورکس پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں سعودی عرب میں ’انٹرٹینمنٹ اینڈ ویلفیئر‘ کے نام سے مشہور تنظیم کے سربراہ ترکی الشیخ میکڈونلڈ ریسٹورنٹ میں مفت کھانے کی تشہیر کر رہے ہیں اور لوگوں کو آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
ترکی الشیخ اس ویڈیو میں کہتے ہیں: میکڈونلڈز 2023 کے ریاض سیزن کا آفیشل پارٹنر ہے۔
اس نے لوگوں سے یہ بھی اعلان کیا: “ایک کھانا خریدو اور دوسرا تحفہ کے طور پر حاصل کرو۔”
سعودی عرب کے انٹرٹینمنٹ بورڈ کے سربراہ کی جانب سے میکڈونلڈز کے لیے یہ اشتہارات اس حال میں کیئے گئے جب عرب اور اسلامی ممالک نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی پروڈکشنز، دکانوں اور ریستورانوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی تھی۔
واضح رہے کہ میک ڈونلڈز ان اولین ریستورانوں میں تھا جس پر اسرائیلی فوجیوں میں کھانے کی تقسیم کی تصاویر شائع ہونے کے بعد پابندی عائد کی گئی تھی۔
الشیخ کی ویڈیو جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا اور اسی مواد کے ساتھ صرف ایک ٹویٹ اس کے صفحہ پر رکھی گئی تھی، اس پر سوشل میڈیا صارفین نے غصے کا اظہار کیا، اور انہوں نے اس کارروائی کو پروپیگنڈا ویڈیو اور سعودی حکام کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کو بچانے کی کوشش، قرار دیا۔