اسرائیل کے لیے “طوفان الاقصیٰ” کی ضربیں صرف میدان جنگ تک ہی محدود نہیں رہیں، بلکہ یہ نقصانات عسکری دائرے سے بھی باہر اور وسیع ہیں، اور بلاشبہ ان شعبوں میں سے ایک اہم ترین شعبہ “اسرائیلی جاسوسی اختراعات اور ٹیکنالوجی” ہے۔ جس کا یہ حکومت دعوی کرتی ہے، اس شعبے میں۔
گزشتہ 27 ستمبر کو اسرائیل کے دورے کے دوران، نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے سربراہ ڈچ بریگیڈیئر جنرل “راب باؤر” نے غزہ کی سرحد پر اسرائیلی جاسوسی اختراعات اور صلاحیتوں اور تکنیکی معلومات کا دورہ کیا، جس کے دوران اس حکومت کے فوجی کمانڈروں نے مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال سیکھا۔ اور نگرانی اور کنٹرول کے طریقوں کے ساتھ انہوں نے اسے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی پیشکش کی۔ نیٹو کے بیان کے مطابق ڈچ جنرل کے دورے کا ایک مقصد اسرائیل کے فوجی تجربے اور عسکری صلاحیتوں اور اختراعات کو بروئے کار لانا تھا۔
اس ملاقات کے 10 دن بعد اور 7 اکتوبر کی صبح کے پہلے گھنٹوں میں، فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ یہ جنگ، جسے اکتوبر 1973 کی جنگ کے بعد سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا ہے، اس نے تمام جدید نظاموں اور سکیورٹی اور اسرائیلی جاسوسی اختراعات کی نئی ٹیکنالوجی کو شکست دے گیا۔
اسرائیلی جاسوسی اختراعات اور جنگی معیشت
پچھلی دو دہائیوں کے دوران، اسرائیل نے اپنی توجہ جدید فوجی ٹیکنالوجیز اور سائبر جاسوسی سافٹ ویئر کی طرف مبذول کرائی ہے، اور اس نے ان تمام فوجی ٹیکنالوجیز اور اسرائیلی جاسوسی اختراعات کو مقبوضہ علاقوں میں اپنی جنگوں کے دوران محاذ آرائی اور استعمال میں سب سے آگے رکھا ہے۔ چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز سے لے کر سرحدی چوکیوں اور مواصلات کی الیکٹرانک چھان بین تک، یہ سب غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جاسوسی آپریشن کا حصہ تھے، جسے دنیا کی انتہائی جدید اور غیر انسانی جاسوسی کارروائیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ان فوجی تکنیکی کاوشوں کے علاوہ، بہت بڑے میڈیا آلات نے بھی اسرائیلی جاسوسی اختراعات کی نئی ٹیکنالوجیز کی طاقت، ذہانت اور مہارت کو تسلیم کرنے کے لیے دنیا کی رائے عامہ کو اپنی طرف مبذول کیا ہے، کہ مشرق وسطیٰ میں ٹیکنالوجی کے میدان میں فی الحال “اسرائیل” پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ تمام تصویر جسے اسرائیل نے برسوں سے دنیا میں رنگنے اور شکل دینے کی کوشش کی، وہ مزاحمت کے منظم حملے سے مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
یہ اثر قلیل مدت میں فوری طور پر ظاہر نہیں ہو سکتا، اس اثر کی شدت اور حدت اس وقت ظاہر ہو گی جب وہ ممالک اور کمپنیاں جو اسرائیل سے یہ آلات اور ٹیکنالوجی اور اسرائیلی جاسوسی اختراعات خریدتے تھے، ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر شک کرنے لگے اور ان پر اعتماد ختم ہوجائے۔
اسرائیل کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہتھیاروں اور الیکٹرانک سکیورٹی کی ٹیکنالوجیز کی برآمد پر مبنی ہے، جس نے گزشتہ چند سالوں میں وسیع بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر، اسرائیل کے ہتھیاروں کی برآمدات کی مالیت 2022 میں 12.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو پچھلے تین سالوں کے مقابلے میں 50 فیصد اور گزشتہ دہائی کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ہے۔
گزشتہ مئی میں، اسرائیل کی وزارت جنگ کے ڈائریکٹر جنرل، ایال زمیر نے مستقبل میں الیکٹرانک جنگ میں پیش رفت اور اس جنگ میں فیصلہ سازی کی آسانی کے حوالے سے پیش گوئی کی تھی کہ: “اسرائیل خطے میں سپر پاور بننے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔” یہ اس وقت ہے جبکہ اسرائیل نے ہمیشہ آئرن ڈوم دفاعی سسٹم کے بارے میں اس طرح تشہیر کی ہے کہ گویا یہ نظام ایک ناقابل تسخیر نظام ہے۔
حالیہ برسوں میں، ہم نے اسرائیلی جاسوسی اختراعات اور جاسوسی کے آلات اور اختراعات کی فروخت میں زبردست تیزی دیکھی ہے، کچھ اندازوں کے مطابق اس مارکیٹ میں لین دین کی مالیت 12 ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ اس ترقی کا ایک بڑا حصہ ان نکمی حکومتوں کی جانب سے دہشت گردی اور جرائم پیشہ گروہوں سے جنگ لڑنے کے لیے اسرائیلی جاسوسی اختراعات اور آلات کو استعمال کرنے کی وجہ سے ہے، جو درحقیقت اپنی جاسوسی کروا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر، کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کم از کم 74 ممالک نے ان اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ 2011 اور 2023 کے درمیان سپائی ویئر اور الیکٹرانک مجرمانہ جاسوسی ٹیکنالوجیز کے حصول کے لیے معاہدہ کیا۔
اسرائیل اس قسم کی کمپنیوں اور جاسوسی سافٹ ویئر کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، اس لیے ان سافٹ وئیر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز خریدنے والے 74 ممالک میں سے 56 ممالک نے اس حکومت یا اس کے ساتھ موجود کمپنیوں سے اپنی ضروریات پوری کی ہیں اور ان کمپنیوں مثال کے طور پر NSO گروپ بھی شامل ہے جو کہ مشہور “پیگاسس” سپائی ویئر کا فروخت کنندہ ہے۔
اگرچہ اسرائیل اس میدان میں اپنے تمام صارفین کو ایک ساتھ نہیں کھوئے گا، لیکن بلا شبہ اسے طوفان الاقصیٰ کے دوران حماس میں اپنی انٹیلی جنس کی ناکامی سے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا اور اب وہ اپنے آپ کو جاسوسی آلات اور اختراعات کے میدان میں ایک بے تاج بادشاہ کے طور پر پیش نہیں کر سکے گا۔
انسان، فیصل کن اور بااثر عنصر
اگرچہ مصنوعی ذہانت جیسے ’’جی پی ٹی‘‘ کو انسانی زندگی کے میدان میں متعارف کرانا اس میدان کو بدل دے گا لیکن سائنسدانوں کے مطابق مصنوعی ذہانت کی انسانی ذہانت پر برتری محدود اور عارضی ہوگی اور بہت سے مسائل کے حل میں فیصلہ کن عنصر انسان ہی رہے گا۔
ان سائنسدانوں کے مطابق مصنوعی ذہانت پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے، برعکس نتائج برآمد ہوتے ہیں اور مصنوعی ذہانت آپ کو کسی خاص موضوع پر جو ڈیٹا اور فیصلے فراہم کر سکتی ہے وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اس نکتے پر غفلت برتنے میں، یہ اختراعات بڑی سطح پر افراد اور اداروں اور حتیٰ کہ حکومتوں کو بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔
یہ جدید ٹیکنالوجیز اور اختراعات پر بھی لاگو ہوتا ہے، خاص طور پر جنگ کے زمانے میں۔ جب آپ ان ٹیکنالوجیز اور اختراعات کو میدان میں فیصلے اور منصوبہ بندی کا اختیار دیتے ہیں تو اس سے کمانڈروں کے فیصلوں پر اثر پڑتا ہے اور ان میں جھوٹی برتری اور فخر کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔
اکتوبر 1973 کی جنگ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے، جب اسرائیلی فتح اور برتری کے غرور سے لبریز تھے اور وہ ناچ رہے تھے، ایک مصری سپاہی جس کے ہاتھ میں نیلے رنگ کا پائپ تھا، اسرائیلیوں کے غرور اور برتری کی اس چمک کو ختم کر دیتا ہے۔
دوسری طرف فلسطینی مزاحمت نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کو انجام دینے کے لیے سب سے آسان اور دنیاوی سہولیات کا استعمال کیا جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، ایسی سہولیات جو اگرچہ سادہ اور غیر معمولی ہیں، لیکن ان کے استعمال کے لئے مشق اور مہارت کی ضرورت ہے، اور یہ ایک مسئلہ ہے، جس کو مزاحمتی گروہ سمجھ چکے تھے۔
اگرچہ اختراعات اور نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اپی حد تک بہت اچھا ہے، لیکن اگر انہیں صحیح جگہ پر استعمال نہ کیا گیا تو ان سے بہت زیادہ نقصان اور ضرر ہوگا، جسے اسرائیل نے مزاحمت کے سامنے نظر انداز کر دیا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ یہ ٹیکنالوجیز ہر وقت اور حالات میں استعمال نہیں کی جا سکتیں، انسانی عقل اور سوچ ان کی جگہ لے لیتی ہے۔
مختصر یہ کہ ہماری موجودہ دنیا میں اگرچہ ٹیکنالوجی اولین ترجیح ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اگر آپ کے پاس اسرائیلی جاسوسی اختراعات تو کیا، دنیا کی سب جدید ترین ٹیکنالوجیز اور آلات ہی کیوں نہ ہو، لیکن آپ سادہ ترین مسائل کے بارے میں سوچنے کی طاقت نہیں رکھتے تو آپ کو ناقابل تلافی ناکامیوں اور نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا جو نہ صرف میدان جنگ کو متاثر کرے گا بلکہ دیگر معاشی، سیاسی اور سماجی شعبے بھی اس نقصان کی زد میں ہوں گے۔