سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک کی سلامتی کے لیے واشنگٹن پر انحصار کرتے ہیں لیکن فلسطین کے بارے میں موقف ان کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات سے زیادہ اہم نظر نہیں آ رہے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے اپنے ملک کو مشرق وسطیٰ کے سب سے بااثر کردار کے طور پر متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تاہم، وہ اب بھی حقیقی سفارت کاری کے میدان میں سیاست بازی سے کام لے رہے ہیں فلسطین کے بارے میں موقف واضح نہیں کر رہیں، اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں ان کا کوئی ٹھوس اثر نہیں مل رہا۔
کیا فلسطین کے بارے میں موقف اختیار کرنے سے زیادہ اہم کچھ اور بھی ہوسکتا ہے؟
امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے سینئر محقق بن سلمان کے فلسطین کے بارے میں موقف کے حوالے سے سٹیون کک کہتے ہیں: 23 اکتوبر کو جب دنیا کو معلوم ہوا کہ قطر اور مصر دو اسرائیلی خواتین کو حماس کی قید سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، تو محمد بن سلمان کی تصویر انسٹاگرام پر مشہور فٹ بالر کا اکاؤنٹ پر نظر آئی۔ وہ فٹ بالر پرتگالی فٹ بال اسٹار کرسٹیانو رونالڈو تھے جنہوں نے ای سپورٹس کے مستقبل پر گفتگو کے حوالے سے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی۔ جہاں سعودیوں نے اعلان کیا کہ وہ ویڈیو گیمز کے پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی کریں گے۔
غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر اور مصر کی کوششوں اور ریاض میں رونالڈو اور بن سلمان کے درمیان ہونے والی مختصر بات چیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کے بارے میں موقف کے حوالے سے سعودی عرب کے پاس اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک طویل راستہ درپیش ہے تا کہ وہ مشرق وسطیٰ کا سب سے اہم اور بااثر ملک بن سکے۔
درحقیقت حماس اور اسرائیل کے درمیان 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے نئے سعودی شاہوں نے پرانے سعودی بادشاہوں کی طرح کام کیا ہے۔ فلسطین کے بارے میں موقف کے حوالے سے ریاض میں تحریکیں چل رہی ہیں لیکن ہم نے سعودی حکام کی طرف سے کوئی حقیقی کارروائی نہیں دیکھی۔ اور یہ ایک اسلامی ملک کے لئے حیران کن ہے؛ کیونکہ محمد بن سلمان اور ان کے مشیروں نے تمام تر تنقید کے باوجود سعودی عرب میں اہم تبدیلیوں کو آگے بڑھایا ہے۔
جب بات خارجہ پالیسی اور بحران کے انتظام کی ہو تو سعودی بے اختیار نظر آتے ہیں جیسا کہ فلسطین کے بارے میں موقف اختیار نہ کرنے پر ایک سابق سینئر امریکی اہلکار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نااہلی کی وجہ یہ ہے کہ سعودی اس مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں: کہ وہ اب بھی اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ یعنی وہ ملک جو غزہ پر اسرائیل کے حملے میں سہولت فراہم کر رہا ہے، وہ ملک جس کے ساتھ سعودی ولی عہد چند ہفتے پہلے تک تعاون کر رہے تھے اور وہ فلسطینی ریاست کی شرط کے بغیر اسرائیل سے راضی ہونے پر آمادہ نظر آئے تھے۔
سعودیہ کی پالیسیوں میں تضادات اور اس کا حل
ان تضادات کو سنبھالنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بن سلمان اپنے اثر و رسوخ کے بارے میں کیے گئے دعوے کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے ایک نتیجہ خیز کردار ادا کریں اور فلسطین کے بارے میں موقف اختیار کریں۔ لیکن اس کے بجائے سعودی بیانات جاری کرنے اور مختلف ملاقاتیں کرنے میں مصروف ہیں۔
7 اکتوبر کو سعودی وزارت خارجہ نے فریقین کے درمیان تنازعہ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ تب سے، سعودیوں نے کئی بیانات جاری کیے ہیں۔ انہوں نے متعدد فون کالز کیں اور کثیر الجہتی ملاقاتیں کیں، لیکن ایسے اقدامات جو خطے میں استحکام کی بحالی کے لیے مثبت ثابت ہوں اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور فلسطین کے بارے میں موقف واضح نہیں کیا۔
15 اکتوبر کو بن سلمان کی امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات سے عین قبل، سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں جزوی طور پر کہا گیا کہ ریاض غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی کی اسرائیلی درخواست کو مسترد کرتا ہے اور شہریوں پر حملے جاری رکھنے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ فلسطین کے بارے میں موقف کی راہ پر ایک اصولی موقف ہے۔ لیکن اس سے فلسطینیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
18 اکتوبر کو، انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کا اہتمام کیا۔ ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اپنے فلسطین کے بارے میں موقف اختیار کرتے ہوئے، خطاب میں سعودی وزیر خارجہ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے ردعمل میں عالمی برادری کی بے عملی اور دوہرے معیار کی مذمت کی۔
فیصل بن فرحان نے 2002 میں عرب امن منصوبے کے لیے سعودی عرب کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔ اس وقت سعودی عرب کے اس وقت کے ولی عہد “عبداللہ بن عبدالعزیز” کی قیادت میں اس اقدام نے عرب اور غیر عرب مسلم ممالک کو فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عہد کیا تھا۔ یقیناً یہ منصوبہ کافی عرصے سے مرچکا ہے۔ اس کے باوجود سعودی وزیر خارجہ نے ان چند معاملات میں سے ایک پر روشنی ڈالی جس میں سعودیوں کے پاس اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے قیام کے لیے کچھ ٹھوس پیش کش ہے اور فلسطینیوں کے لیے انصاف کے لیے ریاض کے عزم پر زور دیا۔
جب دل کی بات کہنے کے لیے دوسروں کا سہارا لیا جائے
تاہم، یہ ملاقات ریاض کی جانب سے تعمیری سفارت کاری اور فلسطین کے بارے میں موقف کی حقیقی کوشش نہیں تھی، بلکہ اسرائیل اور سعودی معاہدے کو معمول پر لانے کے ممکنہ معاہدے پر امریکہ کے ساتھ کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد تعلقات عامہ کی ایک مشق تھی۔ واضح رہے کہ اس ملاقات سے ایک روز قبل سعودی عرب کی اہم سابق سیکیورٹی شخصیت ترکی بن فیصل نے ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی میں تقریر کی۔
اپنی تقریر کے دوران انہوں نے غزہ میں خونریزی پر نہ صرف اسرائیل اور مغرب بلکہ حماس کو بھی اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ درست ہے کہ ترکی بن فیصل کو اب حکومتی عہدے سے باہر سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ اب بھی وہ شخص ہے جس نے عوامی سطح پر ایسے بیانات دیئے جو سعودی حکام کہنا تو چاہتے ہیں، لیکن سر عام طور پر نہیں کہہ سکتے۔
سعودیہ کے اسرائیل سے کونسے مفادات وابستہ ہیں؟
یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ترقی اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع کے لیے محمد بن سلمان کے 2030 کے وژن کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر اہم علاقائی معیشتوں بشمول اسرائیل کے استحکام اور سالمیت پر ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان مارچ میں ہونے والے معاہدے سے خطے میں تناؤ کم ہونا تھا۔ لیکن یہ معاہدہ سعودیوں کی کمزوری کی وجہ سے ہوا اور اس نے صرف سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کو بے اثر کر دیا۔
محمد بن سلمان غزہ کی جنگ میں اس طرح سے کام نہیں کرنا چاہتے جس سے ایران کا غصہ بڑھے تاکہ انصار اللہ دوبارہ سعودی عرب کے آبادی کے مراکز کو نشانہ بنائے۔
اپریل میں سوڈان میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہترین حالت میں تھے، کیونکہ سعودی اس قابل تھے کہ ثالثی کے ذریعے اس تنازعے سے نمٹنے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کر سکیں اور امریکہ کے لیے مفید ثابت ہوں۔
خطے میں استحکام کے لیے واشنگٹن کو ایک بار پھر مدد کی ضرورت ہے، لیکن سعودی اس بار مدد کرنے سے قاصر یا تیار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ بن سلمان اپنے ملک کی سلامتی کے لیے واشنگٹن پر منحصر ہیں، لیکن موجودہ حالات میں ان کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات خطرے سے دوچار ہیں۔
بن سلمان کو ایک چھوٹی سی نصیحت
سعودی عرب کے ولی عہد نے بھلے ہی اپنا اقتدار قائم کر لیا ہو لیکن انہیں محتاط رہنا چاہیے۔ فلسطین اب بھی سعودی عرب میں ایک اہم علامتی مسئلہ ہے، اور بن سلمان کے لیے اس وقت بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہو گا، کیونکہ اسرائیل کے لیے ملک کی پرعزم حمایت نے شاید رائے عامہ پر مضبوط اور منفی اثرات چھوڑے ہیں۔
اس کے باوجود سعودی عرب کے ولی عہد بظاہر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس طرح سے خود کو رائے عامہ کے سامنے نہ لانا ہی بہتر ہے۔ اس کے نقطہ نظر سے، بیانات جاری کرنا، بین الاقوامی برادری پر تنقید کرنا، اپنے ساتھیوں سے رابطہ کرنا اور فٹبال اسٹارز کے ساتھ گھومنا پھرنا ایک بہتر حکمت عملی ہوسکتی ہے۔ تاہم، اس طرح کا نقطہ نظر سعودی عرب کو کمزور دکھاتا ہے اور اس کی اپنی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔